نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اللہ کا عرش

 دیوبندی حیاتی مماتی حنفیوں کا عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات دونوں کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے ح

تو سوال پیدا ہوتا ہے اللہ سامنے تھا تو جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے خطبہ حجتہ الوداع دیا اپنی انگلی مبارک آسمان کیطرف اٹھا کے کیوں کہا اے اللہ گواہ رہنا۔ جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا وصال ہوا آپ کی انگلی مبارک آسمان کیطرف اٹھی ۔اگر اللہ اس دھرتی پہ ہر جگہ موجود ہے تو عیسی علیہ السلام کو آسمان پہ کیوں اٹھایا گیا۔ اگر اپکا عقیدہ درست ہے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام معراج پہ آسمانوں کی سیر پہ کیوں گئے ۔ جنت دوزخ آسمانوں پہ کیوں ہے نبیوں سے آسمانوں پہ ملاقات کیوں ہوئی ۔اللہ سے ملاقات پھر آسمان پہ کیوں ہوئی۔ اور آپکے اس غلیظ دماغ میں یہ کیوں نہیں آیا اس دھرتی پہ قحبہ خانے شراب خانے غسل خانے اور دیگر ناپاک مقامات بھی ہیں کیا یہ اس خالق حقیقی کی شان اقدس میں گستاخی نہیں جہاں مخلوق ہو خود خالق بھی وہاں ہی ہو 

موسی علیہ السلام انکے حواریوں کو نور کی تجلی آسمان سے کیوں کردکھائی 

اور سب سے بڑا سوال نبیوں کے آنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے پھر وہ مالک خود اپنے دین کی اشاعت کرتا (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)

آپ خالق کائنات کو مخلوق سے تشبیہ دے رہے ہو 

آدم علیہ السلام ابلیس اماں حوا کو آسمان سے نیچے کیوں اتارا گیا۔ اچھا پھر قرآن کا نزول آسمان سے کیوں ہوا زمین سے ہی ہوجاتا ۔ آپکا مسئلہ یہ ہے اپکا فرقہ قرآن و حدیث سے ٹکرانے کا نام ہے چونکہ آپکے امام جس کو آپ نے پس پردہ نبوت کے درجہ پہ فائز کر رکھا ہے وہ بھی حدیث کے سامنے اپنی رائے پیش کرتے تھے محدثین کی بڑی جماعت نے ان پہ فتوے عائد کیے کہ ابوحنیفہ جب قرآن و سنت کی بات ہو اپنی قیاس آرائیاں لے بیٹھتا ہے ۔جب آپکے جدامجد کا علم اتنا وسیع ہے تو آپکے کیا کہنے


إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ 

ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے (سورۃ یونس ،آیت 3)

إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ

ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے 

(سورۃ الاعراف ،آیت 54)

ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ 

ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کرلو (سورۃ الرعد،آیت 2)

ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ 

ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے (سورۃ طہ،آیت 5)

ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا 

ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس اس کی شان کسی خبردار سے پوچھو (سورۃ الفرقان،آیت 59)

ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ 

ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے 

(سورۃ السجدۃ،آیت 4)

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ 

ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے 

(سورۃ الحدید ،آیت4)

یہ قرآن مجید جو اللہ رب العزت کا پاک آسمانی الہامی کلام ہے آپکے سامنے ہے 

” سیدنا معاویہ بن حکم سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی ، جو احد اور جوابیہ مقام کی طرف میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا اس کے ریوڑ سے ایک بکری لے گیا، میں آدم زاد تھا، دوسروں کی طرح مجھے بھی افسوس ہوا، میں نے اسے ایک تھپڑ رسید کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اس کام کو میرے لیے برا جانا، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزادنہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا، اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا ، اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ فرمایا، میں کون ہوں ؟ اس نے جواباً عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے فرمایا، اس کو آزاد کردو کہ یہ مؤمنہ ہے۔

مسلم 1199 انٹرنیشنل نمبر 537

حوالہ جات کے لیے کافی تعداد میں حدیث رسول ہیں مگر مومن کے لیے تو ایک دلیل ہی قابل تقلید ہے 

امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی اللہ کریم اپنی ذات پاک اقدس کے اعتبار سے عرش پہ ہے اسکی کیفیت ہمیں معلوم نہیں بس ایمان رکھنا ہے اور صفات کاملہ و علم  کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے مگر ہم اس کو کسی سے تشبیہہ نہیں دے سکتے اسکی مثل کوئی شہ نہیں 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ  الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ  ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ  تَاۡوِیۡلَہٗۤ  اِلَّا اللّٰہُ  ۘ ؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ  مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ  اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ

آل عمران 7

وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ (محمد)پر کتاب (قرآن) نازل کیا جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔   پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو (تاویل) کے لئے ،  حالانکہ ان کی حقیقی (مطلب/مفہوم) مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا  اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ،  یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مولا / مولی

 اہل تشیع حضرات کا دعوی ہے آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے غدیر کے موقع پہ ارشاد فرمایا تھا جس کا میں مولی ہوں علی بھی اسکے مولی ہیں  تو ثابت ہوا اپکے وصال کے بعد امیر المومنین امام / خلیفہ سیدنا علی ہونگے ۔ بھائی بات بڑی سادہ سی ہے میں نہ تومحدث ہوں نہ عالم نہ حافظ ایک عام سا مسلمان ہوں اور قرآن و سنت کا طالب علم ہوں ۔ میرا آسان سا سوال ہے تسلی بخش جواب دیکر ثواب دارین حاصل کریں ۔ پہلے اس حدیث مبارکہ کو بغور پڑھیے من کنت مولاہ فعلي مولاہ جس کا میں مولیٰ ہوں تو علی اس کے مولیٰ ہیں۔ الترمذی: 3713 وسندہ صحیح نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: أنت أخونا ومولانا تُو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔ البخاری: 2699 جس حدیث کو آپ اپنے مقصد کے لیے بڑھ چڑھ کے پیش کرتے ہیں وہ ترمذی کی روایت ہے درجہ میں یہاں بخاری کی سند کا پلڑا زیادہ بھاری ہے ۔ اب آجائیں اصل بات کیطرف یہاں براہ راست ارشاد فرمایا میرا مولی زید ہے تو اس حساب سے تو بھائی پھر خلافت امامت کا پہلا حق زید رضی اللہ عنہ کے پاس جانا چاہیے تھا ۔ کیونکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے انکو اپنا مولی کہا اور اگر مولی کے معنی جس انداز میں

درجہ : علی رضی اللہ عنہ

 اہل تشیع حضرات کا عقیدہ ہے حضور آقا علیہ الصلاۃ والسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ساری کائنات میں افضل ترین انسان حضرت سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ٹھیک ہے انکے ذاکروں نے جھوٹ گھڑا اور خوب مال سمیٹا لیکن ہم آپکی اصلاح کرتے رہینگے بھلے آپ اپنے عقائد پہ ڈٹے رہیں ۔ یہاں ثبوت مختصر ترین کیے گئے ہیں بعض حدیثوں کا عربی متن ترک کردیا ترجمہ پہ کفایت کی۔ قرآنی آیات بھی درج نہیں کیں اور دیگر کتب سے روایتیں پیش نہیں کیں بخاری مسلم پہ ہی اکتفا کیا ہے  مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں توبہ 100 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔“ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داود، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔  بخاری 3673 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول

اللہ ہے کہاں ؟

ہم جمعہ عیدین محض اس لیے اداکرتے ہیں لوگ ہمیں غیر مسلم تصور نہ کریں ۔ صدقہ خیرات کرتے ہیں نیک نامی کے واسطے یا پریشانیاں مشکلات کم ہوجائیں۔ روزہ اس لیے رکھتے ہیں نہ رکھا تو معاشرہ کیا کہے گا ۔ہر عمل میں لوگوں کی خوشنودی یا اپنا ذاتی مفاد شامل ہے ۔ ہماری ان تمام عبادات میں اللہ کہاں ہے ؟  نہ آسکا خوف ہے ہمارے دلوں میں نہ کھبی ہم نے خشیت اختیار کی  حالانکہ وہ تو کہتا ہے سورہ ق آیت 16 میں ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ہم تمہاری رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ لیکن اعتبار کون کرے ۔ ہمارا عقیدہ بھی زبانی کلامی ہے ہمارے دلوں کو یقین نہیں اگر موت اور قیامت پہ دلی ایمان ہو تو ہماری عبادتیں ریاضتیں ریاکاری سے پاک ہوں