Dead body listen voice
By
( اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ (سورہ نمل آیت ۸۰ )
(اے محبوب نبی ﷺ )
آپ نہ تو مردوں کو سنا سکتے ہیں ، اور نہ ایسے بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں ۔‘‘
اس آیت شریفہ کے معنی واضح ہیں کہ کوئی بھی مردوں کو نہیں سنا سکتا ،کیونکہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سنا سکتے تو دوسرا کوئی کیسے سنا سکتا ہے مردوں کو سنانا کسی کے بس میں نہیں :
پیغمبر اکرم ﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) – اے پیغمبر!- مردوں کو نہیں سنا سکتے ” ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے :
کہ یہاں اس آیت میں کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں کو نہیں سنا سکتے اسی طرح ان کفار کو بھی سنانا اور حق قبول کرا دینا آپ کے بس میں نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ مردے نہ سنتے ہوں ۔ ورنہ اس تشبیہ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا ۔
لہذا اہل بدعت کی یہ خوشی فہمی یا مغالطہ آفرینی پا در ہوا ہو جاتی ہے کہ اس سے سماع موتیٰ کی نفی نہیں ہوتی۔
مگر واضح رہے کہ یہاں پر{ تسمع} فرمایا گیا ہے۔ یعنی ” آپ نہیں سنا سکتے ” ۔ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اگر سنانا چاہے تو سنا سکتا ہے کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قلیب بدر میں حضور کا مردوں سے خطاب فرمانا یا قرع نعال والی حدیث وغیرہ سے ثابت ہے کہ یہ سب خرق عادت اور معجزے کے قبیل میں سے ہے – اور قلیب بدر کے مردوں کو سنانا تبھی معجزہ کہلا سکتا جب عام طور پر مردے نہ سنتے ہوں ،
فلا یَقَاس علیہ و ظاہر نفی سماع الموتی العموم فلا یخصّ منہ اِلَّا ما ورد بدلیل – (المراغی : ج 20 ص 19) اور معجزہ پر عمومی حالات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
آیت کے ظاہر سے بالعموم نفی سماع موتی ثابت ہو رہی ہے ،اور اس عموم کی تخصیص سوائے نص و دلیل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک حنفی مفسر شمس پیرزادہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
۱۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں ان پر تمہاری نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات اگر چہ استعارہ کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے لیکن آیت کے الفاظ : اِنَّکَ لَا تْسْمِعُ الْمَوْتٰی (تم مردوں کو نہیں سنا سکتے) سے ایک اہم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مردے سنتے نہیں ہیں ، اور اگر مردے سنتے ہوتے تو یہاں یہ تشبیہ موزوں نہیں ہو سکتی تھی۔ ہاں اللہ کسی شخص کو جو مر گیا ہو کچھ سنوانا چاہے تو اور بات ہے ایسی استثنائی صورتیں تو ممکن ہیں لیکن اصولی حقیقت یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں۔
رہا زیارت قبر کے موقع پر اہل قبور کو خطاب کر کے سلام و دعا کرنا تو یہ ایک مؤثر اسلوب ہے جس میں غائب کو حاضر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ زیارت کرنے والا یہ محسوس کرے کہ وہ مردوں کی دنیا میں پہنچ کر ان سے ملاقات کر رہا ہے اور یہ بات موت کو یاد دلانے والی اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی ہے چنانچہ زیارت قبر کی مسنون دعا کا آخری فقرہ : وَاِنَّا اِنْشَاءَاللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ (اور ہم انشاء اللہ تم سے ملیں گے۔ ) یہی تاثر دیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کے انتقال پر فرمایا تھا : وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اظہار غم کا ایک اسلوب ہے اور لوگوں پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اظہار غم کا جائز طریقہ کیا ہے تاکہ وہ نوحہ اور ماتم کے طریقے اختیار نہ کریں۔(تفسیر دعوت القرآن ).
چیکاٹے نکال دینے والی آیت کریمہ
ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم فدعھم فلیستجب لکم ان کنتم صادقین
جنہیں تمہیں اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے ہی بندے ہیں تو تمہیں چاہیے انکو پکارو تمہاری پکار کا جواب دیں
یہ بہت کمال دعوی / چیلنج ہے مالک کائنات اللہ رب العالمین کا ہمیں معلوم ہوا مردے نہیں سنتے ورنہ جواب دیتے دوسری بات کلمہ گو مشرک بکواس کرتے رہتے ہیں یہ شرک والی آیات پتھروں کے بارے ہیں بتوں سے متعلق ہیں ہستیوں کا وسیلہ پیش کر سکتے ہیں تو قرآن صاف کہ رہا ہے تم اللہ کے سوا جس جس کی عبادت کرتے ہو وہ تمہارے جیسے بندے ہیں مخلوق ہیں خالق نہیں مانگتے ہیں فقیر ہیں داتا نہیں پیدا ہوئے فوت ہوگئے اپنے اٹھنے پہ قادر نہیں بخشش کے لیے خود اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں
پکارنا ہی عبادت ہے خوشی غمی میں پکارنا یہی عبادت ہے
Journalist/Blogger/Article writer
member
American Society Of Journalists and Author’s
New York USA
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں