نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

سفارش / شفاعت / وسیلہ

 یہاں لوگوں کے دل میں عجیب و غریب خیالات بس چکے ہیں فلاں کے وسیلے سے فلاں کے طفیل فلاں کے صدقے بخشش ہوجائے گی یہ سب خام خیالی باتیں ہیں ایسا کچھ نہیں ہونا کیونکہ وحی مقدس نے یہ گتھی بھی سلجھا دی ہے  يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفّاً لا يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً۔ (النبا 78:38) جس دن جبرئیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے۔ يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109) اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ(البقرۃ: 255) ’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے‘ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ (یونس: 3) ’ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں ‘ بات سمجھ آگئی اللہ جس کو بخشنا چاہے گا کسی نبی ولی کے دل میں خیال ڈال دے گا اور وہ اسکی اجازت سے شفاعت کا سو

حاضر ناظر / نور و بشر

 مسلمانوں میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اسکے بعد تک یہ مسائل نہ تھے جو آج ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکے ہیں بلکہ عقیدہ بن چکے ہیں ۔ اہلبیت صحابہ کرام تابعین محدثین کے ادوار تک یہ مسئلے نہیں گھڑے گئے تھےپھر ہوا یوں پیٹ کی دوذخ بھرنے کے لیے نام نہاد ولیوں پیروں فقیروں مجاوروں گدی نشینوں نے دکانداری چمکانے کے لیے یہ فصول بحث و مباحثہ چھیڑ دیا ۔ ان سارے سوالوں کے جواب یہاں محض ایک سورت الانبیاء کی چند آیات کریمہ سے دئیے گئے ہیں ویسے تو ان موضوعات پہ قرآن مجید فرقان حمید سے درجنوں کیا سینکڑوں آیت مقدسہ پیش کی جاسکتی ہیں ۔ کیا پیغمبر بشر / بندے تھے یا نوری مخلوق  ؟ کیا پیغمبر اور ولی زندہ ہیں یا وفات پاچکے؟ کیا ولی اللہ اور پیغمبر حاضر ناظر ہیں سنتے دیکھتے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے وَحَرَامٌ عَلٰى قَرْيَـةٍ اَهْلَكْنَاهَآ اَنَّـهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ  اور جن بستیوں کو ہم فنا کر چکے ہیں ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئیں۔ الانبیاء 95 كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے  الانبیاء 35 وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْـدَ ۖ اَف

سوراخ والی تھیلیاں

 نماز روزہ حج صدقہ خیرات جہاد ہر عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے  وگرنہ قیامت کے دن یہ نیکیاں منہ پہ دے کے ماری جائیں گئیں اللہ تمہاری نیت سے بخوبی واقف ہے ۔ ہم لوگوں کو تو دھوکا دے سکتے ہیں مگر اللہ ہماری ریاکاری کو دیکھ رہا ہے ۔ آئیے اپنے ایمان کا جائزہ لیں خود کو ٹٹولیں کلام اللہ کیا کہتا ہے  یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ والْاَذَی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ  البقرة 26 اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ  الذاریات 19 ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والوں ( دونوں) کا حق ہے۔ یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ. البقرة  254 اے ایمان والو جو کچھ (رزق) ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ  92آل عمران  جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ

اللہ ہے کہاں ؟

ہم جمعہ عیدین محض اس لیے اداکرتے ہیں لوگ ہمیں غیر مسلم تصور نہ کریں ۔ صدقہ خیرات کرتے ہیں نیک نامی کے واسطے یا پریشانیاں مشکلات کم ہوجائیں۔ روزہ اس لیے رکھتے ہیں نہ رکھا تو معاشرہ کیا کہے گا ۔ہر عمل میں لوگوں کی خوشنودی یا اپنا ذاتی مفاد شامل ہے ۔ ہماری ان تمام عبادات میں اللہ کہاں ہے ؟  نہ آسکا خوف ہے ہمارے دلوں میں نہ کھبی ہم نے خشیت اختیار کی  حالانکہ وہ تو کہتا ہے سورہ ق آیت 16 میں ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ہم تمہاری رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ لیکن اعتبار کون کرے ۔ ہمارا عقیدہ بھی زبانی کلامی ہے ہمارے دلوں کو یقین نہیں اگر موت اور قیامت پہ دلی ایمان ہو تو ہماری عبادتیں ریاضتیں ریاکاری سے پاک ہوں