شیخ عبد القادر کی پیدائش 1078ء اور وفات 1166ء میں ہوئی۔ کچھ لوگ ان کا درجہ نبیوں اور اللہ سے بھی بڑھا دیتے ہیں۔ نعوذباللہ کہتے ہیں کہ اللہ پھسلے اور انھوں نے اللہ کو تھام لیا۔ اسکے علاؤہ ان کی ایسی ایسی کرامات بتاتے ہیں جو کسی بنی کے پاس بھی نہیں تھی۔ اور ان کرامات کا سلسہ ماں کے پیٹ سے شروع کرتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ 1099 میں صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا۔ 70 ہزار صرف باب داؤد کے سامنے شہید ہوئے۔ 1188 میں صلاح الدین نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ اگر شیخ عبد القادر اتنے ہے کرامتی تھے تو کیوں نہیں بیت المقدس اور لاکھوں مسلمانوں کو صلیبیوں سے بچا سکے۔ ڈوبی کشتیوں کو تو نکالتے رہیں پر لاکھوں مسلمانوں کو شہید ہونے سے بچا نہ سکے۔ پھر جب بیت المقدس پر صلیبیوں نے قبضہ کیا تو یہ 21 سال کے تھا۔ کیوں نہیں جہاد میں شامل ہوئے اور پھر ان کی زندگی میں بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں رہا۔ نبیوں نے تو جہاد کیا۔ عبد القادر نے جہاد کیوں نہیں کیا۔ بیت المقدس کیوں نہیں آزاد کرایا اپنی زندگی میں۔ پھر عبد القادر بغداد میں رہتے تھے اور لاکھوں لوگ ان کا بیان سنتے تھے۔ بیان بغداد میں ہوتا تھا اور مصر والے مصر میں سنتے ہیں۔ تو ان کی آواز بغداد میں رہنے والے خلیفوں تک کیوں نہیں پہنچی اور بغداد زوال پذیر کیوں رہا؟
جاہلوں جواب دو!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں