By Honey Bin Tariq:
سنن ابوداؤد میں حضرت علیؓ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی جو حدیث ہے، اُس کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق کوفی ہے—اور یہ راوی محدثین کے نزدیک *مجہول*، *ضعیف*، اور *متروک الحدیث* شمار ہوتے ہیں۔
- امام احمد بن حنبل نے کہا: *عبدالرحمن بن اسحاق کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کی حدیث میں نکارت ہے*
[سنن ابوداؤد 1/201]
- امام بیہقی: اس روایت کی سند ثابت نہیں، اور عبدالرحمن بن اسحاق اس میں منفرد ہے، وہ "متروک" ہے
[معرفۃ السنن 2/341، ]
- امام نووی: *یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے*
یعنی یہ روایت بالکل کمزور، ضعیف، اور دلیل کے طور پر ناقابلِ قبول ہے—یہی محدثین کی متفقہ رائے ہے۔
**مصنف ابن ابی شیبہ** میں "تحت السرہ" (ناف کے نیچے) کے الفاظ، اصل متون اور مستند نسخوں میں ثابت نہیں—یہ بعد کے بعض نسخوں یا ناقابلِ اعتبار نسخوں میں پایا جاتا ہے، اور اس اضافے کی تاریخی حقیقت پر بہت سے علما نے سوال اٹھایا ہے۔
اہم نکات حوالہ جات کے ساتھ:
1. *اصل ابن ابی شیبہ میں تحت السرہ کے الفاظ نہیں*:
معتبر محققین (حمد بن عبداللہ و محمد بن ابراہیم) کے مطابق اکثر قدیم و مستند نسخوں میں "تحت السرۃ" (ناف کے نیچے) کا ذکر نہیں پایا گیا ۔
2. *سب سے پہلے یہ الفاظ قاسم بن قطلوبغا حنفی نے شامل کیے*:
علما کے مطابق یہ اضافہ سب سے پہلے قاسم بن قطلوبغا حنفی (879ھ) نے کیا، جو خود غیر معتبر اور جھوٹ گھڑنے والے مشہور ہیں ۔
3. *طلبی نسخہ جات اور ابن ابی شیبہ کی نشریات میں بھی یہ الفاظ متنازعہ*:
کچھ بعد کے زیرِ انتظامی نسخوں یا ذاتی ملکیت کے نسخوں میں "تحت السرہ" کی زیادتی آئی، جبکہ اصل نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ملتے ۔
4. *بڑے احناف علماء بھی اس روایت کو کمزور مانتے ہیں*:
مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر احناف بھی مانتے ہیں کہ صرف کچھ نسخوں میں یہ الفاظ مشکوک صورت میں ملتے ہیں، یہ مضبوط دلیل نہیں ۔
5. *یہ اضافہ فی الواقع "مدرج" ہے، اصل حدیث کا حصہ نہیں*:
جتنے بڑے محدثین اور عرب دنیا کے علماء نے تحقیق کی—وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ "تحت السرہ" کا لفظ اصل میں بعض تابعین یا ناقابلِ اعتماد نقل کنندگان کا اضافہ ہے ۔
6. *اسی لئے اس دلیل کی بنیاد پر عمل کرنا درست نہیں*:
نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو "سنت" کہنا اصل حدیث اور سنت نبوی کی روشنی میں ثابت نہیں۔
**خلاصہ:**
- "تحت السرہ" کا اضافہ اصل مصنف ابن ابی شیبہ یا دیگر مستند کتب میں *نہیں*
- یہ لفظ ناقابلِ اعتبار احادیث اور نقل کنندگان کے ذریعے نسخوں میں آیا
- بڑے محدثین اور حتیٰ کہ بعض احناف بھی اسے حجت یا مضبوط دلیل نہیں مانتے
. **نبی اکرم ﷺ سے مرد و عورت کیلئے سینے پر ہاتھ باندھنے کے صحیح دلائل ہیں**
- وائل بن حجرؓ کہتے ہیں: *“میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور دونوں کو اپنے سینے پر رکھا۔”*
(ابن خزیمہ: 479، صحیح بخاری: 740، مسند احمد: 226/5)
2. **ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح روایت نہیں**
- علماء نے بالاتفاق کہا ہے کہ *ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے* والی روایت ضعیف ہے اور سنت رسول ﷺ کے خلاف ہے۔
3. **سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم سب کیلئے عام ہے**
- *صلو کما رأیتمونی اصلی* (بخاری: 631) یعنی: “نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے دیکھا ہے۔”
اس میں عورت یا مرد کی کوئی تخصیص نہیں، سب کیلئے طریقہ ایک جیسا ہے۔
4. **احناف میں خواتین کو سینے پر اور مردوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کہا جاتا ہے**
- مگر فقہی طور پر خواتین کیلئے سینے پر ہاتھ رکھنے کی بھی کوئی مستند حدیث احناف کے پاس نہیں، یہ محض اجتہادی رائے ہے۔
**خلاصہ:**
- سنت نبوی و صحیح روایات کے مطابق مرد و عورت دونوں کو *سینے پر* ہاتھ باندھنا چاہیے۔
- ناف کے نیچے یا عورتوں الرجال کیلئے الگ طریقہ بنانا نہ قرآن سے، نہ حدیث سے ثابت ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں